۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 360704
22 مئی 2020 - 03:17
محمد بشیر دولتی

حوزہ/اردو زبان میں ڈھیل کا لغوی معنی لچک مہلت یا نرم پن ہے۔ ان معنی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوے دیکھا جائے تو اس صدی میں دنیا میں کسی ملک کو اقوام متحدہ کے ذریعے اگر ڈھیل ملی ہے تو وہ ملک قابض اسراٸیل ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|اردو زبان میں ڈھیل کا لغوی معنی لچک مہلت یا نرم پن ہے۔ ان معنی کو ملحوظ نظر رکھتے ہوے دیکھا جائے تو اس صدی میں دنیا میں کسی ملک کو اقوام متحدہ کے ذریعے اگر ڈھیل ملی ہے تو وہ ملک قابض اسراٸیل ہے۔ اور ڈیل اردو میں حبثہ، حجم ، شکل ، گٹا ، ڈول ، وضع یا شباہت کے معنی میں ہے۔ مگر اصطلاح میں ہمارے ہاں کسی بھی غیر اخلاقی و غیر قانونی عمل کو قابل قبول بنانے کے عمل کو کہا جاتا ہے۔
ڈیل انصاف یا عدالت نہیں  ہوتی البتہ طاقتور کی طرف سے کمزور پہ فیصلہ تھوپنے کی روش یا کسی مجرم کو غیر عادلانہ انداز میں سہولت اور تخفیف دینے کے عمل  کو ڈیل کہا جاتا ہے۔ لہذا صدی کی ڈیل نامی اس عالمی گیم کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اسرائیل کیسے وجود میں آیا؟ 
19ویں صدی میں برطانیہ عالمی طاقت تھا مگر جرمنی بھی ایک بڑی طاقت کے طور پہ نمودار ہو رہا تھا {اس دوران یہودی یورپ میں اقلیت کی حیثیت سے رہ رہے تھے}۔
ایک طرف برطانیہ۔ فرانس اور روس کا اتحاد تھا۔ دوسری طرف جرمنی، اٹلی ، آسٹریا اور ہنگری وغیرہ۔ اس وقت مسلمانوں میں قابل ذکر ترکی تھا جو سلطنت عثمانیہ کے نام سے وسیع اسلامی علاقوں پہ حاکم تھا۔ اگرچہ حضرت عثمان یا خلافت سے کوئی نسبی تعلق نہیں تھا مگر مسلمان اور اسلام سے تعلق کی بنا پر خلافت عثمانیہ کےنام سے ایک ظاہری اسلامی حکومت تھی۔ 1517 میں ترک عثمانی حکومت نے مملوک خاندان سے اقتدار چھینا اور فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ اس دور میں مصر سے مکہ و مدینہ تک ترکوں کی حکومت تھی۔ البتہ بعض عرب قبائل خلافت عثمانیہ کے خلاف بار بار بغاوت کرتے رہے۔ جب دوسری جنگ عظیم چھڑگئی تو ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور روسی بندرگاہوں پر حملہ کر کے عالمی جنگ کا باقاعدہ حصہ بن گیا وہ بھی برطانیہ جیسی طاقت کے خلاف۔ چنانچہ برطانیہ اور اس کے اتحادی ممالک نے سلطنت عثمانیہ اور اس کے زیر اثر علاقوں جن میں فلسطین بھی شامل تھا کو اپنا خاص ٹارگٹ بنایا۔ جس زمانے میں مصر سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی ترکوں کے قبضے میں آگئے تھے برطانیہ نے سلطنت  عثمانیہ کو شکست دینے کیلیے ایسا پلان بنایا جس کے تحت مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنا اور  دنیا بھر کے یہودیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کا آغاز ہوا۔ برطانیہ نے اپنی کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان عرب قباٸل کی سرپرستی شروع کی جو خلافت عثمانیہ کے خلاف تھے۔ یوں ایک قبیلہ کے سربراہ سعود کے سرپر دست شفقت رکھا۔ پھر اسے حجاز کا حکمران بنا دیا۔ بدلتے ہوئے سیاسی حالات و مناظر کو دیکھتے ہوئے یہودیوں نے اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا ان میں ان کی تنظیم  صیہون 8 نے خفیہ کوششیں تیز کردیں۔ اس دور میں صیہونی تحریک کا سربراہ کیمسٹری کا ایک یہودی پروفیسر ڈاکٹر واٸنرمین تھا۔اس نے مہلک ہتھیاروں کی شکل میں اپنی خدمات کے عوض میں  برطانوی حکومت سے یہ انعام مانگا کہ وہ وعدہ کرے کہ جنگ میں کامیابی کی صورت میں فلسطین میں یہودیوں کا ایک قومی وطن قاٸم کیا جاۓ۔ چنانچہ نومبر 1917 میں وزیر خارجہ لارڈ بالفور نے ایک خفیہ خط کے زریعے یہ وعدہ کرلیا اسی خط کو عرف عام میں "اعلان بالفور" کہا جاتا ہے۔ اس خفیہ معاہدے کی وجہ سے یہودیوں کی تمام ہمدردیاں برطانیہ امریکہ فرانس اور آل سعود کے ساتھ ہوچکی تھیں ۔ اسی دوران 3 جون 1933 کو 26 جرمن نیوکلیٸر سائنسدان میں سے 14 ملک چھوڑ کر چلےگٸے۔ ان میں مشھور ساٸنسدان آئن اسٹائن سمیت چند دیگر ایسے جرمن  سائنسدان تھے جنہوں نے امریکہ میں ایٹمی ٹکنالوجی کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ جرمنی اور جاپان سے پہلے ایٹم بم بناکر جاپان کے ناگاساکی اور ہیروشیما کو پلک جھپکنے میں راکھ کا ڈیر بھی بنادیا۔ یوں امریکہ کو عالمی طاقت بنانے میں یہودیوں کا بنیادی کردار شامل ہے۔ کچھ سائنسدان برطانیہ و فرانس چلے گٸے یوں اس اتحاد کی بنیاد پڑی جسے آج ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک دیکھتے رہینگے۔ فلسطینیوں نے اپنی زمینیں مہنگے داموں یہودیوں کو بیچ دیں۔ یہودی این جی اوز زمینیں خرید کر گھر بناتے رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنا شروع کیا۔ فلسطینیوں کو ہوش آنے تک یہودی اپنا کام کر چکے تھے۔ 1936 سے 1939 تک فلسطینیوں نے برطانیہ سے بغاوت بھی کی مگر اب پانی سر سے گزر گیا تھا۔ چڑیاں کھیت چک گٸی تھیں۔ اسی دوران ہی یہودیوں نے فلسطین میں اپنالشکر بنادیا۔ سلطنت عثمانیہ کا چاند برطانیہ ، سعود خاندان اور چند عرب قباٸل کی گٹھ جوڑ سے غروب  ہوچکا تھا۔ فلسطینی بے سر و سامان و بے سرپرست ہوگٸے تھے۔ امریکہ و برطانیہ نے یہودیوں کو منظم و مضبوط کیا تھا۔ اب یہودیوں نے اپنی فوج بھی بنالی۔ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد سات لاکھ اٹھاون ہزار تک پہنچ کر بھت منظم ہوگٸے تو برطانیہ نے علاقے کو جو عثمانی سلطنت کے بعد اپنے چنگل میں لے رکھا تھا اب اسے اقوام متحدہ کے حوالے کردیا۔ 16 مٸی 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے زریعے ارض فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا اور اسراٸیل کو کل رقبے کا %56 فیصد حصہ بخش دیا گیا۔ 3 منٹ کے بعد امریکہ نے اور 8 منٹ بعد سویت یونین نے اس ریاست کو قبول کیا۔ جو کہ اس وقت کے دو سپر پاور تھے۔ اس وقت عرب ممالک سمیت پورے عالم اسلام نے اس قابض سلطنت کو قبول نہیں کیا جن میں شام اور مصر پیش پیش تھے۔ عرب ممالک نے اعلان جنگ کیا گھمسان کی جنگ ہوئی تو عالمی طاقتوں سمیت اقوام متحدہ نے مداخلت کی۔ عرب اسرائیل کئی جنگیں ہوئیں پھر  چھ روزہ  5 تا 10 جون 1967 تیسری عرب اسرائیل جنگ ہوئی اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل پہلے سے زیادہ وسیع تر ہوگیا۔ ان مختلف جنگوں اور ان میں عالمی استعمار کی پشت پناہی کے نتیجے میں  اسرائیل نے فلسطین کے مغربی کنارے مشرقی یروشلم  پٹی صحرائے سینا غرب اردن اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی دعوئے کو مسترد کرتی رہی ہے۔ چونکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 242 کی بنیاد پرجنگ کے دوران میں جیتی گئی سرزمین کو فاتح کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا اس اصول کو زمین برائے امن کہا جاتا ہے۔ لیکن اسرائیل کے لیے کوئی اصول ہی نہیں ہے۔قابض اسرائیل واحد ملک ہے جو ناجائز وجود کے ساتھ پھیلتارہا اور اقوام متحدہ میں ان کے خلاف تمام قرارداد امریکہ شیطان بزرگ کے زریعے ویٹو ہوتی رہی اقوام متحدہ نے کبھی اسرائیلی مظالم کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ نہ کبھی فلسطین اور کشمیر کے عوام کی فریادوں پہ کان دھرا بلکہ مسلمانوں کی فریاد ہمیشہ ان سنی کرتارہا۔ مشرقی تیمور کے عیسائیوں نے انڈونیشیا سے آزادی کا مطالبہ کیا تو فوری ریفرنڈم کرا کے 1999 میں آزاد کیا۔ دارفر کے عیسائیوں کو ریفرنڈم کے زریعے سوڈان سے الگ کیا مگر کبھی فلسطینیوں اور کشمیری مسلمانوں کی فریاد پر کوئی توجہ نہیں دی۔ لہذا اس صدی میں سب سے زیادہ ڈھیل اگر کسی کو ملی ہے تووہ غاصب اسرائیل ہے۔ 
 عرب حکمرانوں کی شکست اور عقب نشینی اور پھر اسرائیل سے دوستی کے سفر تک فلسطینی اور لبنانی جوانوں نے غیرت حمیت و شوق شہادت کی بے مثال و لازوال داستانوں کو رقم کیا۔ عرب جنگوں کے بعد اسرائیل کو پہلی ہزیمت شمالی لبنان میں حزب اللہ کے جوانواں کے ہاتھوں اٹھانا پڑی جنھوں نے جزبہ ایمانی اور شوق شہادت سے اسرائیلیوں کو لبنان سے نکال دیا۔ بعد میں واحد جماعت تھی جو اسرائیل پہ کاری ضربیں لگاتی رہی ہے۔ پھر 33 روزہ جنگ کو تو پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح حزب الہی جوانوں نے اسرائیل کو شکست دیتے ہوئے اپنے اسیروں کو چھڑوایا۔ فلسطین میں ایران کے پاسداران نے غزہ کے اندر حماس اور جہاد اسلامی کی بنیا رکھی جو اب اتنے قوی ہوگئی ہیں کہ جب چاہیں اسرائیل پر میزائلوں کی بارش برساتی ہے  حماس اور حزب اللہ کو ایران اور شام کی مدد حاصل ہے اسی لیے امریکہ اسرائیل شامی حکومت کو گرانا چاہتے تھے۔ آج مقاومتی بلاک نے اسرائیل کو بری طرح سے گھیر لیا ہے۔ تو اسرائیل کے پرانے دوستوں اور آقاٶں نے اسرائیل کو اخلاقی جواز اور بقا دینے کے لیے دنیا والوں کو دھوکہ دینے کےلیے اقتصادی اور مالی منصوبوں کے زریعے جس ساز کی آڑ میں مسٸلہ فلسطین کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں اور   اسے صدی کی ڈیل کا نام دیا جاتا ہے۔ اب آئیں کہ عالمی استعمار اس ڈیل کے زریعے کیا چاہتا ہے ہم دیکھیں گے۔ صدی کی ڈیل امریکہ میں موجود یہودی لابی بلخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یہودی داماد مشیر کا ذہنی اختراع ہے۔ تاکہ اس کے زریعے فلسطینیوں کو بنیادی انسانی حقوق  اور ان کی اپنی زمین سے بے دخل اور قابض اسرائیل کو مستقل آئینی حیثیت دیا جاسکے۔ چند چیدہ چیدہ نکات کو ہم یہاں مختصراً ذکر کرتے ہیں۔
1.بیت المقدس کو اسرائیلیوں کے حوالے کرنا۔
 2.یروشلم اسرائیل کا پایہ تخت ہوگا۔ جہاں چار لاکھ سے ذائد فلسطینی آباد ہیں۔
 3.وادی گولان کو اسرائیل کا حصہ قرار دینا۔
 4.غرب اردن کو صیہونی ریاست میں ضم کردینا۔ 5.فلسطینیوں کو فوج رکھنے کا حق نہیں اسرائیل ان کی حفاظت کرے گا۔ 
6.فلسطینیوں کے پاس پولیس کا شعبہ ہوگا وہ بھی محدود اختیارات کے ساتھ۔ 7.میونسپلٹی کے امور بھی اسرائیل کے حکم سے انجام دینا ہوگا۔ 
8.جو فلسطینی خاص مدت سے باہر مقیم ہیں انکی شہریت منسوخ ہونگی۔ تین سال بعد جو ہمفکر وہم خیال ہوجائیں تو کچھ کو واپسی کی اجازت ہوگی۔ 
9۔یہودی اکثریتی علاقوں میں موجود مسلمانوں کو مسلم اکثریتی علاقوں میں جانا ہوگا۔ جبکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں موجود یہودیون کو وہیں رہنے کی اجازت ہوگی۔
 10.غزہ کے قریب مصر اپنی زمین کا ایک حصہ نئی فلسطینی ریاست کیلیے ائیرپورٹ فیکٹری اور زرعی سیکٹر کےلیے دےگا جہاں فلسطینی آکر کام کر سکیں گے لیکن رہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
 12.صدی معاہدے پر دستخط کے بعد اپنا اسلحہ مصر کے حوالے کرےگا۔
 13.حماس کو عرب ریاستیں تنخواہ دیں گی۔
14.امریکہ کینیڈا آسٹریلیا یورپی یونین چین جنوبی کوریا اور سعودی اتحاد سرمایہ کاری کریں گے۔
 15.یوں پانچ سال میں نئی فلسطینی ریاست بنے گی جسکے چاروں طرف اسرائیل کا پہرا ہوگا کسی بھی اسلامی ملک سے ان کازمینی رابطہ نہیں ہوگا۔ 16.فلسطین کے لیے 15 ارب امداد جبکہ 25 ارب قرض 11 ارب ڈالر سود کی شکل میں دیا جائےگا۔ 
17.موجودہ فلسطینی ریاست ختم ہوگی۔
 18۔اسرائیل کو مستقل حیثیت حاصل ہوگی۔ اور یہ سب امریکہ اسرائیل سعودیہ کی طرف سے بنایا گیا ہے حماس اور فلسطینی اتھارٹی کو فقط اس پہ دستخط کرنے کا حکم ہے۔فلسطینی عوام اور کوٸی بھی فلسطینی گروہ اس نام نہاد معاہدے کے حق میں نہی ہے۔ اس ظالمانہ و غیر منصفانہ ڈیل کو فلسطین کے شھید پرور قوم نے سختی سے مسترد کردیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فلسطینی قوم نے بحرین میں ہونے والی منامہ کانفرنس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حماس اور مزاحمتی قوتیں کسی بھی قیمت پر اس ذلت آمیز ڈیل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور تو اور صدر محمود عباس بھی اس کے حق میں بلکل نہیں ہے۔ قطر اس معاملے پر خاموش ہے۔ مگر سعودی عرب سمیت عرب امارات مصر اردن بحرین امریکہ اسرائیل اور یورپی یونین ہم نوا و ہم زبان ہیں۔ جو زبردستی اس معاہدے کو فلسطینیوں پر مسلط کرنا چاھتے ہیں۔جبکہ مقاومتی بلاک حماس جہاد اسلامی فلسطین۔فلسطین لبریشن اور شام عراق یمن اور ایران ترکی پاکستان وغیرہ اس ظالمانہ و غیر انسانی و غیر عقلی ڈیل کے خلاف ہیں۔فلسطینی عوام کثیر تعداد میں اس ڈیل کے خلاف نہ فقط مظاہرے کر رہے ہیں بلکہ اب تک ان مظاہروں میں کٸی شھدإ بھی دےچکے ہیں جسے عالمی میڈیا مسلسل نظر انداز کررہا  ہے۔ جو بھی انسانی آزادی اور اقدار پہ ایمان رکھتےہوں  ایسے آزادی پسند لوگ کبھی بھی اس طرح کے یک طرفہ زور زبردستی والے معاہدوں کو قبول نہیں کریں گے  اور فلسطین کے مظلوم عوام اپنے شھداء کے مقدس خون اور قومی غیرت کی سودا بازی کبھی نہیں کرےگی۔ قابض اسرائیل مقاومتی بلاک کے سامنے سرنگوں ہوگا۔خون شھید شیخ احمد یاسین ، شھید رنتیسی و شھید سلیمانی شھید مغنیہ شھید ابو مھدی  اور دیگر شھداۓ راہیان حق راٸیگاں نہیں جاۓ گا۔ ان شاء اللہ۔

تحریر : محمد بشیر دولتی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .